تحریر: مولانا سید محمد روح اللہ رضوی قم مقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی | پاکستان و ہندوستان میں چند سال قبل ایام عزاداری فاطمیہ سلام اللہ علیہا کا وہ تصور جو آج ہمارے درمیان موجود ہے، نہیں تھا بلکہ روز شہادت مختصر پیمانے پر مجالس کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ مرثیہ و سوز و نوحہ خوانی میں کئی سنگین مصائب بیان کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ آج بھی قدیم مرثیوں میں حضرت محسن علیہ السلام کی شہادت، بی بی سلام اللہ علیہا کے دربار میں بلانے اور گریہ کی مخالفت اور بی بی سلام اللہ علیہا کے دلسوز غمگین اشعار کے بیان پر اکتفاء کو مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ شاید وجہ ایک ایسے معاشرے میں رہنا ہو جہاں مختلف نظریات و مکاتب موجود ہیں اور بعض موضوعات اپنی حساسیت کی وجہ سے کھل کر بیان نہ کئے جاتے ہوں، خصوصا جب لوگ حقائق سے دور ہوں اور بغیر مقدمات فراہم کئے ان حقائق کا بیان کسی فتنہ و فساد کا موجب ہو۔
اسکے برعکس ایران و عراق کی اکثریت شیعہ آبادی پر مشتمل ہے، ہلکی پھلکی فارسی سے آشنائی اور انقلاب اسلامی سے متعلق معلومات کے درمیان جب ایران عراق جنگ کے دوران مجاہدین اسلام کے جنگی لباسوں پر یہ عبارت لکھی دیکھی کہ "میروم تا انتقام سیلی زہراء (س) بگیرم"(جب تک زہراء (س) کے تمانچوں کا انتقام نہ لے لوں میں آگے بڑھتا جاوئنگا) تو ایک مرتبہ دل لرز کر رہ گیا۔ ایران آنے کے بعد ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا کی حساسیت کا اندازہ ہوا، ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا منانے میں شدت کی ایک بڑی وجہ بعض افراد کا سیدہ سلام علیہا کی شہادت سے انکار تھا اور وہ سطحی اعتراضات و شبہات تھے جو اولیاء الہی کے جنگ و صلح و سکوت و خطاب کے پیچھے مصلحت سمجھنے سے قاصر ہونے کے سبب پیش آئے، اسکا ایک جواب یہی تھا کہ لوگوں کو اس تاریخی حقیقت سے زیادہ سے زیادہ آشنا کرایا جائے۔
وہ مصیبتیں جنہیں صرف پڑھ کر انسان لرز جائے یقینا سیدہ سلام علیہا کے سوا کسی کے بس کی بات نہ تھی اور یہ حقیقت تھی جو آپ نے بیان کی کہ اگر "صُبَّتْ عَلَى الاْيّامِ صِرْنَ لَيالِيا" یہ روشن دنوں پر پڑھتیں تو تاریک راتوں میں تبدیل ہوجاتے، خدا نے سخت ترین امتحان آپ سلام اللہ علیہا سے لیا "فوجدک لما امتحنک به صابرة" اور آپ کو اس امتحان میں صبور پایا۔
لیکن آج سوشل میڈیا کے اس دور میں علاقوں کا فرق ختم ہوتا جارہا ہے بہت سی باتیں آج نہیں تو مستقبل قریب میں سر عام زیر بحث آئیں گی لہذا یقینا اسے روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن زمانوں اور علاقوں کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ایسے میں خواص کا کام ہے کہ وہ کس طرح صحیح اسلوب کے ساتھ، عقل و خرد کے استعمال کے ذریعے اور جذباتیت اور جنونیت سے دور رہ کر ان مقاصد کی جانب سفر طے کرتے ہیں۔ عوام الناس سے بھی یہی گذارش ہے کہ ان علماء کی جانب نگاہ کریں جو تشیع کے معاشرتی مسائل کے حل میں بھی آگے آگے ہوتے ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مقاصد جس کی خاطر علی علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا، جس کی خاطر سیدہ سلام علیہا نے مصیبتوں کے پہاڑ سر کئے ہم انکی ان قربانیوں کو اپنے جذبات کی بھینٹ چڑھا دیں:
فَخَشِيتُ إِنْ لَمْ أَنْصُرِ الْإِسْلَامَ وَ أَهْلَهُ أَنْ أَرَى فِيهِ ثَلْماً أَوْ هَدْماً تَكُونُ الْمُصِيبَةُ بِهِ عَلَيَّ أَعْظَمَ مِنْ فَوْتِ وِلَايَتِكُمُ
مجھے خوف تھا کہ اگرمیں اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کروں تو دین میں ایک دراڑ دیکھوں یا دین کی نابودی کا ناظر بنوں، کہ یہ مصیبت تم پر چند دن حکومت کرنے سے زیادہ بڑی ہے۔ (نہج البلاغہ؛ مکتوب ۶۲، اہل مصر کے نام)